اگر گل میں پیارے تری بو نہ ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر گل میں پیارے تری بو نہ ہووے
by عشق اورنگ آبادی

اگر گل میں پیارے تری بو نہ ہووے
وہ منظور بلبل کسی رو نہ ہووے

ترے بن تو فردوس مجھ کو جہنم
قیامت ہو مجھ پر اگر تو نہ ہووے

ہو اس بزم میں شمع کب رونق افزا
جہاں محفل افروز مہ رو نہ ہووے

یہ آئینہ لے جا کے پتھر سے پھوڑوں
پری کا اگر درمیاں رو نہ ہووے

مہکتی ہے زلف سیہ اس کی ہر رات
کہیں اس میں عشقؔ عطر شبو نہ ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse