اگر کچھ ہوش ہم رکھتے تو مستانے ہوئے ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر کچھ ہوش ہم رکھتے تو مستانے ہوئے ہوتے
by سراج اورنگ آبادی

اگر کچھ ہوش ہم رکھتے تو مستانے ہوئے ہوتے
پہنچتے جا لب ساقی کوں پیمانے ہوئے ہوتے

عبث ان شہریوں میں وقت اپنا ہم کئے ضائع
کسی مجنوں کی صحبت بیٹھ دیوانے ہوئے ہوتے

نہ رکھتا میں یہاں گر الفت لیلیٰ نگاہوں کوں
تو مجنوں کی طرح عالم میں افسانے ہوئے ہوتے

اگر ہم آشنا ہوتے تری بیگانہ خوئی سیں
برائے مصلحت ظاہر میں بیگانے ہوئے ہوتے

زبس کافر ادایوں نے چلائے سنگ بے رحمی
اگر سب جمع کرتا میں تو بت خانے ہوئے ہوتے

نہ کرتا ضبط اگر میں گریۂ بے اختیاری کوں
گزرتا جس طرف یہ پور ویرانے ہوئے ہوتے

نظر چشم خریداری سیں کرتا دلبر ناداں
اگر قطرے مرے آنسو کے دردانے ہوئے ہوتے

محبت کے نشے میں خاص انساں واسطے ورنہ
فرشتے یہ شرابیں پی کہ مستانے ہوئے ہوتے

عوض اپنے گریباں کے کسی کی زلف ہات آتی
ہمارے ہات کے پنجے مگر شانے ہوئے ہوتے

تری شمشیر ابرو سیں ہوئے سنمکھ و الا نہ
اجل کی تیغ سیں جیوں آرا دندانے ہوئے ہوتے

مزہ جو عاشقی میں ہے سو معشوقی میں ہرگز نیں
سراجؔ اب ہو چکے افسوس پروانے ہوئے ہوتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse