اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے
by بیدم وارثی

اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے
تو پھر سجدہ مری ہر لغزش مستانہ ہو جائے

وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے
وہ سر ہے جو کسی کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے

یہ اچھی پردہ داری ہے یہ اچھی رازداری ہے
کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے

مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے

تری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرت دل کی
عجب کیا ہے مرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے

شب فرقت کا جب کچھ طول کم ہونا نہیں ممکن
تو میری زندگی کا مختصر افسانہ ہو جائے

وہ سجدے جن سے برسوں ہم نے کعبہ کو سجایا ہے
جو بت خانے کو مل جائیں تو پھر بت خانہ ہو جائے

کسی کی زلف بکھرے اور بکھر کر دوش پر آئے
دل صد چاک الجھے اور الجھ کر شانہ ہو جائے

یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے

سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے

وہ مے دے دے جو پہلے شبلی و منصور کو دی تھی
تو بیدمؔ بھی نثار مرشد مے خانہ ہو جائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse