اگر وہ گلبدن مجھ پاس ہو جاوے تو کیا ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر وہ گلبدن مجھ پاس ہو جاوے تو کیا ہووے
by داؤد اورنگ آبادی

اگر وہ گلبدن مجھ پاس ہو جاوے تو کیا ہووے
زمین دل میں تخم عشق بو جاوے تو کیا ہووے

صنم تجھ زلف کے زنار کے رشتے میں آ زاہد
اپس کے سبحہ گردانی کوں کھو جاوے تو کیا ہووے

پلا جام شراب عیش وو ساقیٔ بزم آرا
غبار غم کوں لوح دل سوں ہو جاوے تو کیا ہووے

بیاں کرتا ہوں میں تجھ زلف مشکیں کا صنم نس دن
ختن میں گر سخن میرے کی بو جاوے تو کیا ہووے

سدا مشق جنون عشق میں رہتا ہے سودائی
اگر داؤدؔ کی یو زشت خو جاوے تو کیا ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse