اگر وہ اپنے حسین چہرے کو بھول کر بے نقاب کر دے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر وہ اپنے حسین چہرے کو بھول کر بے نقاب کر دے
by اختر شیرانی

اگر وہ اپنے حسین چہرے کو بھول کر بے نقاب کر دے
تو ذرے کو ماہتاب اور ماہتاب کو آفتاب کر دے

تری محبت کی وادیوں میں مری جوانی سے دور کیا ہے
جو سادہ پانی کو اک نشیلی نظر میں رنگیں شراب کر دے

حریم عشرت میں سونے والے شمیم گیسو کی مستیوں سے
مری جوانی کی سادہ راتوں کو اب تو سرشار خواب کر دے

مزے وہ پائے ہیں آرزو میں کہ دل کی یہ آرزو ہے یا رب
تمام دنیا کی آرزوئیں مرے لیے انتخاب کر دے

نظر نا آنے پہ ہے یہ حالت کہ جنگ ہے شیخ و برہمن میں
خبر نہیں کیا سے کیا ہو دنیا جو خود کو وہ بے نقاب کر دے

مرے گناہوں کی شورشیں اس لیے زیادہ رہی ہیں یا رب
کہ ان کی گستاخیوں سے تو اپنے عفو کو بے حساب کر دے

خدا نہ لائے وہ دن کہ تیری سنہری نیندوں میں فرق آئے
مجھے تو یوں اپنے ہجر میں عمر بھر کو بیزار خواب کر دے

میں جان و دل سے تصور حسن دوست کی مستیوں کے قرباں
جو اک نظر میں کسی کے بے کیف آنسوؤں کو شراب کر دے

عروس فطرت کا ایک کھویا ہوا تبسم ہے جس کو اخترؔ
کہیں وہ چاہے شراب کر دے کہیں وہ چاہے شباب کر دے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse