اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
by میر سوز

اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
تو جیتے جی نہ لیتا نام ہرگز آشنائی کا

جو عاشق صاف ہیں دل سے انہیں کو قتل کرتے ہیں
بڑا چرچا ہے معشوقوں میں عاشق آزمائی کا

کروں اک پل میں برہم کارخانے کو محبت کے
اگر عالم میں شہرہ دوں تمہاری بے وفائی کا

جفا یا مہر جو چاہے سو کر لے اپنے بندوں پر
مجھے خطرہ نہیں ہرگز برائی یا بھلائی کا

نہ پہنچا آہ و نالہ گوش تک اس کے کبھو اپنا
بیاں ہم کیا کریں طالع کی اپنے نارسائی کا

خدایا کس کے ہم بندے کہاویں سخت مشکل ہے
رکھے ہے ہر صنم اس دہر میں دعویٰ خدائی کا

خدا کی بندگی کا سوزؔ ہے دعویٰ تو خلقت کو
ولے دیکھا جسے بندہ ہے اپنی خود نمائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse