اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
by شاد عظیم آبادی

اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
تو میں مرنے سے در گزرا مرے کس کام آئے گا

اسے بھی ٹھان رکھ ساقی یقیں ہوگا نہ رندوں کو
اگر زاہد پہن کر جامۂ احرام آئے گا

شب فرقت میں درد دل سے میں اس واسطے خوش ہوں
زباں پر رات بھر رہ رہ کے تیرا نام آئے گا

لگی ہو کچھ تو قاصد آخر اس کم بخت دل میں بھی
وہاں تیری طرح جو جائے گا ناکام آئے گا

اسی امید میں باندھے ہوئے ہیں ٹکٹکی میکش
کف نازک پہ ساقی رکھ کے اک دن جام آئے گا

یہاں اپنی پڑی ہے تجھ سے اے غم خوار کیا الجھوں
یہ کون آرام ہے مر جاؤں تب آرام آئے گا

زہے عزت جو ہو اس بزم میں مذکور اے واعظ
بلا سے گر گنہ گاروں میں اپنا نام آئے گا

ہزار انکار یا قطع تعلق اس سے کر ناصح
مگر ہر پھر کے ہونٹوں پر اسی کا نام آئے گا

عطا کی جب کہ خود پیر مغاں نے پی بھی لے زاہد
یہ کیسا سوچنا ہے تجھ پہ کیوں الزام آئے گا

پڑا ہے سلسلہ تقدیر کا صیاد کے بس میں
چمن میں اے صبا کیونکر اسیر دام آئے گا

کوئی بدمست کو دیتا ہے ساقی بھر کے پیمانہ
ترا کیا جائے گا مجھ پر عبث الزام آئے گا

انہیں دیکھے گی تو اے چشم حسرت وصل میں یا میں
ترے کام آئے گا رونا کہ میرے کام آئے گا

ہمیشہ کیا پیوں گا میں اسی کہنہ سفالی میں
مرے آگے کبھی تو ساغر زرفام آئے گا

کہاں سے لاؤں صبر حضرت ایوب اے ساقی
خم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا

چھری تھی کند تیری یا ترے قاتل کی او بسمل
تڑپ بھی تو تری گردن پہ کیوں الزام آئے گا

یہی کہہ کر اجل کو قرض خواہوں کی طرح ٹالا
کہ لے کر آج قاصد یار کا پیغام آئے گا

ہمیشہ کیا یوں ہی قسمت میں ہے گنتی گنا دینا
کوئی نالہ نہ لب پر لائق انجام آئے گا

گلی میں یار کی اے شادؔ سب مشتاق بیٹھے ہیں
خدا جانے وہاں سے حکم کس کے نام آئے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse