اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
مرے آغاز الفت میں ہم افسوس
اسے بھی رہ گئی حسرت جفا کی
کبھی انصاف ہے دیکھا نہ دیدار
قیامت اکثر اس کو میں رہا کی
فلک کے ہاتھ سے میں جا چھپوں گر
خبر لا دے کوئی تحت الثرا کی
شب وصل عدو کیا کیا جلا ہوں
حقیقت کھل گئی روز جزا کی
چمن میں کوئی اس کو سے نہ آیا
گئی برباد سب محنت صبا کی
کشاد دل پہ باندھی ہے کمر آج
نہیں ہے خیریت بند قبا کی
کیا جب التفات اس نے ذرا سا
پڑی ہم کو حصول مدعا کی
کہا ہے غیر نے تم سے مرا حال
کہے دیتی ہے بیباکی ادا کی
تمہیں شور فغاں سے میرے کیا کام
خبر لو اپنی چشم سرمہ سا کی
دیا علم و ہنر حسرت کشی کو
فلک نے مجھ سے یہ کیسی دغا کی
غم مقصد رسی تا نزع اور ہم
اب آئی موت بخت نارسا کی
مجھے اے دل تری جلدی نے مارا
نہیں تقصیر اس دیر آشنا کی
جفا سے تھک گئے تو بھی نہ پوچھا
کہ تو نے کس توقع پر وفا کی
کہا اس بت سے مرتا ہوں تو مومنؔ
کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |