اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
by اشرف علی فغاں

اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا

گریباں چاک کر روتے کہاں ہم
اگر یہ دامن صحرا نہ ہوتا

سدا رہتی توقع بلبلوں کو
اگر یہ غنچۂ گل وا نہ ہوتا

جدائی میں اگر آنکھیں نہ روتیں
تو ہرگز راز دل افشا نہ ہوتا

فغاںؔ کون اب خریدار سخن تھا
اگر یہ حضرت سوداؔ نہ ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse