اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم
by قاسم علی خان آفریدی

اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم
جو پروانہ ہوئے تو جل گئے ہم

پڑے آ کر فلک کے آسیا میں
مثال دانہ ہائے دل گئے ہم

کسی صورت نہ پایا ہم نے آرام
یہاں سے واں کے تئیں بے کل گئے ہم

نہ یاں سے لے گئے نہ واں سے لائے
کف افسوس ناحق مل گئے ہم

طلسمات جہاں کا دیکھ ظاہر
طرف معنی کے اب اوجھل گئے ہم

چلے آئے تھے تاریکی سے لیکن
پہ چلتے وقت لے مشعل گئے ہم

نہ آیا ہاتھ وہ دیر و حرم میں
ملا جب دل کے در مندل گئے ہم

اگر سمجھو گے معنی شیخ صاحب
گئے پر تم کو کر قائل گئے ہم

رہے گا نام افریدیؔ کا تا حشر
ہمیں تھے جو کہ لا طائل گئے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse