اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے
by عشق اورنگ آبادی

اگر ثابت قدم ہو عشق میں جیوں شمع جل سکیے
مقابل تند خو کی تیغ ابرو کے سنبھل سکیے

ہمارے اشک خونیں نے حنائی رنگ لایا ہے
ارے دل اس کے پاؤں پر یہ آنکھیں اب تو مل سکیے

پلک سے جس طرح آنسو گزر جاتا ہے اک پل میں
صراط اوپر خدا کا فضل شامل ہو تو چل سکیے

نکلنا صید کا صیاد کے پھاندے سے مشکل ہے
نہیں آسان اے دل دام دنیا سے نکل سکیے

لگی جب شمع کی سی طرح آتش عشق کے سر کو
تصور شعلہ رو کا باندھ کر جل جل پگھل سکیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse