اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
by ریاض خیرآبادی

اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
تو بے جا بھی شکوہ بجا ہے کسی کا

حسیں حشر میں سر جھکائے ہوئے ہیں
وفا آج وعدہ ہوا ہے کسی کا

وہ جوبن بہت سر اٹھائے ہوئے ہیں
بہت تنگ بند قبا ہے کسی کا

وہ خود چاہتے ہیں کوئی اب ستائے
ستانا مزا دے گیا ہے کسی کا

جو ہیں دست گستاخ اپنے سلامت
تو جھوٹا ہی وعدہ وفا ہے کسی کا

وہ کیوں اٹھ کے خلوت سے محفل میں آئیں
وہ کیا جانیں کیا مدعا ہے کسی کا

بنا لوں خدا تو بھی میرے نہ ہوں گے
بتوں میں کوئی بھی ہوا ہے کسی کا

کوئی گود میں جھم سے آ ہی گیا ہے
تصور ہمیں جب بندھا ہے کسی کا

ریاضؔ اور ہی رنگ میں مست ہیں اب
سنا ہے پیالا پیا ہے کسی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse