اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو
by نوح ناروی

اگر اس کا مرا جھگڑا یہیں طے ہو تو اچھا ہو
خدا جانے خدا کے سامنے کل کیا نہ ہو کیا ہو

گزرتی ہے بشر کی زندگی کس وہم باطل میں
جو ایسا ہو تو ایسا ہو جو ایسا ہو تو ایسا ہو

شب خلوت یہ کہنا بار بار اس کا بناوٹ سے
ہمیں چھیڑے تو غارت ہو ہمیں دیکھے تو اندھا ہو

وہ ہر دم کی عیادت سے مری گھبرا کے کہتے ہیں
غضب میں جان ہے اپنی نہ مر جائے نہ اچھا ہو

وہ فرماتے ہیں مجھ کو دیکھ کر میں یوں نہ مانوں گا
اگر یہ نوحؔ ہے طوفان اٹھائے غرق دنیا ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse