اگرچہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگرچہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں
by رنجور عظیم آبادی

اگرچہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں
ملے ہمیں تخت ورنہ تختہ ہم اپنی اس بات پر اڑے ہیں

اگرچہ ہتھیار دیکھتے ہی خراب ہوتی ہے اپنی دھوتی
قلم سے میدان کاغذی میں ہمیشہ سرکار سے لڑے ہیں

اگرچہ رہتے ہیں جھونپڑوں میں پر خواب محلوں کے دیکھتے ہیں
سڑی گلی مچھلی کھاتے کھاتے دماغ ہم لوگوں کے سڑے ہیں

ہمیشہ سرکار انگلشیہ کو پانی پی پی کے کوستے ہیں
اگرچہ دل ہیں ہمارے بودے مگر زباں کے تو ہم بڑے ہیں

طیور یورپ کی دیکھادیکھی ہے شوق پرواز اب ہمیں بھی
اگرچہ مدت سے پر ہمارے کریز ادبار سے جھڑے ہیں

سدیشی کی کرتے ہیں حمایت کہ بند ہو لندنی تجارت
قدم اکھڑ جائیں صاحبوں کے جو عرصے سے ہند میں گڑے ہیں

کرے کوئی ہم پہ لاکھ احساں ہم اس کو مانیں یہ کیا ہے امکاں
پھسل پڑے جن پہ بوند پڑ کر وہ ان میں چکنے ہم گھڑے ہیں

سدا سے تھے ہم وحوش سیرت غریق دریائے جہل و ذلت
جو پڑھ کے انگریزی پائی عزت تو ظرف تھا تنگ ابل پڑے ہیں

اگر سڈیشن کے جرم میں ہم پرزن جائیں تو کچھ نہیں غم
ہم اپنی کڑیوں کو بیڑیوں کو یہ سمجھیں گے یہ کڑے چھڑے ہیں

کیا نہ ہم نے یہ کام تھوڑا کہ سرفلرؔ کو نکال چھوڑا
ہوئے ہیں ہم کامیاب اکثر اگر کسی بات پر اڑے ہیں

کہا ہے اسلامیوں سے ہم نے کہ اپنا بھائی ہمیں سمجھیے
جو کام لینا ہے ہم کو ان سے تو کیسے فقرے انہیں جڑے ہیں

غرض کہ وقتوں میں ہم نے اکثر لگائی ہے مسلموں سے یاری
مگر غرض جب رہی نہ باقی تو ان سے ناحق الجھ پڑے ہیں

نواب ڈھاکہ کی ہے بن آئی سریندر ناتھ کی دہائی
ہماری شرکت سے مسلموں کو وہ روکنے کے لیے کھڑے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse