اک پری کا پھر مجھے شیدا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک پری کا پھر مجھے شیدا کیا
by رند لکھنوی

اک پری کا پھر مجھے شیدا کیا
عشق نے پھر مفسدہ برپا کیا

آج پھر اس شوخ نے فقرا کیا
وعدۂ امروز بھی فردا کیا

خون ناحق اک مسلماں کا کیا
کیا غضب او شوخ بے پروا کیا

دل کو مائل شعلہ رویوں کا کیا
دین زردشتی کو پھر احیا کیا

ابر اکثر اس برس برسا کیا
کیا تتبع دیدۂ تر کا کیا

کیوں اجل کیا تجھ کو بھی موت آ گئی
اس قدر آنے میں کیوں عرصہ کیا

کان کی بجلی جو یاد آئی تری
برق کے مانند میں تڑپا کیا

وہ کف پائے حنائی کر کے یاد
ہجر کی شب ایڑیاں رگڑا کیا

اس کو بھی سکتہ ہوا دیکھ آئینہ
دیر تک حیرت سے منہ دیکھا کیا

خاک چھانی مدتوں تنکے چنے
کیا کہوں اس عشق میں کیا کیا کیا

کل نہ پاؤ گے ہمیں کہیو سفیر
آج آنے میں اگر حیلہ کیا

واں ہوئے مسی سے لب ان کے کبود
پیٹ کر منہ ہم نے یاں نیلا کیا

تب اٹھے ہیں ان بتوں کے ہم سے ناز
جب کلیجا اپنا پتھر کا کیا

ہے گرہ موئے کمر کی ناف یار
فکر نے اپنے یہ عقدہ وا کیا

لاگ پیدا کر کے اب جلاد سے
جان کھوئی ہائے دل نے کیا کیا

ڈنٹر پہ باندھا ہم نے جوشن کی طرح
حرز جاں قاتل ترا چھلا کیا

مجھ کو مجنوں کر دیا مانند قیس
سحر کچھ اور غیرت لیلیٰ کیا

معرکہ میں عشق کے سرکا نہ پاؤں
آبرو کو جان کو صدقہ کیا

سوز فرقت نے شرارت مجھ سے کی
ہیزم تر کی طرح سلگا کیا

اے شب فرقت نہ کر مجھ پر عذاب
میں نے تیرا منہ نہیں کالا کیا

زلف جاناں جس نے دیکھی ایک بار
دل سے اپنے عمر بھر الجھا کیا

اس مصیبت سے شب فرقت کٹی
پاؤں پیٹے آہ کی نالہ کیا

عشق افشان جبین یار میں
خاک چھلنی کی طرح چھانا کیا

تھا مناسب ترک عشق یار رندؔ
آپ نے انسب کیا اولیٰ کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse