اک پردہ نشیں کی آرزو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
by مضطر خیرآبادی

اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
در پردہ کہیں کی آرزو ہے

ہے بھی تو انہیں کا دل کو ارماں
ہے بھی تو انہیں کی آرزو ہے

ہوتا نہیں ہاں سے قول پورا
اب مجھ کو نہیں کہ آرزو ہے

کھو آئے ہیں کوئے یار میں دل
اس پر بھی وہیں کی آرزو ہے

ایمان کا اب خدا نگہباں
اک دشمن دیں کی آرزو ہے

نکلے بھی تو تیری جستجو میں
یہ جان حزیں کی آرزو ہے

اندھیرا مچا ہوا ہے دل میں
کس ماہ جبیں کی آرزو ہے

کیوں حشر کا قول کر رہے ہو
مضطرؔ کو یہیں کی آرزو ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse