اک نقش خیال رو بہ رو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک نقش خیال رو بہ رو ہے
by مضطر خیرآبادی

اک نقش خیال رو بہ رو ہے
جو کچھ ہے یہ کچھ نہیں ہے تو ہے

ہر پھول کے ساتھ ایک کانٹا
ہر دوست کے ساتھ اک عدو ہے

دل ہے تو ہزار تجھ سے اچھے
ایسا ہی تو اک بڑا وہ تو ہے

دشمن کے جگر کا خار میں ہوں
اور اس کے گلے کا ہار تو ہے

دامن جو ہے پردہ دار وحشت
اس میں بھی کئی جگہ رفو ہے

میں آپ ہی آپ رو رہا ہوں
کچھ آپ ہی آپ گفتگو ہے

محشر میں کسی کا ہائے کہنا
اب آپ کے ہاتھ آبرو ہے

او غیر کو آنکھ دینے والے
مضطرؔ بھی نگاہ رو بہ رو ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse