اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
by شاہ نصیر

اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
اشک آنکھ میں ہے دل میں ہے داغ آہ جگر میں

آرام مجھے بن ترے اک پل نہیں گھر میں
جوں مردمک دیدہ ہوں دن رات سفر میں

پھرتا ہے وہ گل پوش مرے دیدۂ تر میں
ہے شعلۂ جوالہ کی تصویر بھنور میں

سوراخ یہاں صورت فوارہ ہیں سر میں
دکھلاؤں تماشا جو مجھے چھوڑ دے گھر میں

رشک آئے نہ کیوں مجھ کو کہ تو دیکھ زر و سیم
رکھتا ہے قدم پلۂ خورشید و قمر میں

میں ان در شہوار کے اشکوں سے ادھر آ
تولوں گا بٹھا کر تجھے حیران نظر میں

آ دیکھ نہ ہنس ہنس کے رلا مجھ کو ستم گر
اک نوح کا طوفاں ہے مرے دیدۂ تر میں

عکس لب پاں خوردہ سے دنداں ہیں ترے سرخ
یا آتش یاقوت ہے یہ آب گہر میں

باز آؤ شکار افگنی سے ہاتھ اٹھاؤ
بھالے کو میاں کس لیے رکھتے ہو کمر میں

رہتی ہے بہم زلف بنا گوش سے تیرے
کچھ فرق نہیں ہے سر مو شام و سحر میں

ہے اس میں رقم حال سیہ بختی عاشق
یہ نامہ کوئی باندھ دو اب زاغ کے پر میں

یہ بھی کوئی انصاف ہے اے خانہ خراب آہ
اوروں کو تو لے جائے ہے تو دن دیئے گھر میں

اور ہم جو ہیں سو دیکھنے کو بھی ترے ترسیں
دیوار میں رخنہ ہے نہ سوراخ ہے در میں

کس وجہ نصیرؔ اس لب شیریں پہ نہ ہو خال
ہوتا وطن مور تو ہے تنگ شکر میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse