اک طلسم عجب نما ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک طلسم عجب نما ہوں میں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

اک طلسم عجب نما ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہوں میں

ہے زوال اپنا اک نشان کمال
بدو کی طرح گھٹ گیا ہوں میں

کیا نشاں پوچھتے ہو تم میرا
رہ گم گشتہ کا پتا ہوں میں

ہے یہ حیرت کہ ہوں تجسم درد
اور ہر درد کی دوا ہوں میں

میری شہرت ہے میری گمنامی
قوت بازوئے ہما ہوں میں

رہ الفت میں نقش پا کی طرح
خاک ہو ہو کے مٹ گیا ہوں میں

ساغر عشق کر گیا بے خود
ہوش کس کو نہیں ہوں یا ہوں میں

خاک سمجھو تم آبرو میری
درد اعزاز کی بہا ہوں میں

دم غنیمت ہے سالکو میرا
جرس دور کی صدا ہوں میں

ہوں صراحی میں بادۂ احمر
اور مے سرخ میں نشہ ہوں میں

جس طرح سے کنول ہو پانی میں
ہو کے دنیا میں پھر جدا ہوں میں

خاکساری ہے میری جوہر ذات
خاک میں مثل کیمیا ہوں میں

در درج وفا کی آب ہوں میں
دل کے آئینے کی صفا ہوں میں

آج ہے میری دھاک عالم میں
روشناس شہ و گدا ہوں میں

دھوم ہے فن شعر میں میری
قمر علم کی ضیا ہوں میں

لکھوں گر داستان رنج و الم
دل بشکستہ کی صدا ہوں میں

گر کروں ذکر ساز عیش و طرب
طوطئ خلد کی نوا ہوں میں

گر میں لکھوں بیان عرصہ رزم
ناوک ترکش قضا ہوں میں

ایک اس نظم پر ہے کیا موقوف
نور شمع علوم کا ہوں میں

قدر ہے میری قدر علم و ہنر
کیا زمانے میں دوسرا ہوں میں

ہوں تو سب کچھ پہ کچھ نہیں کیفیؔ
صورت موجۂ فنا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse