اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا
لذت فنا چکھی زیست کا مزا پایا

منزلوں کی سختی کا غم نہیں خوشی یہ ہے
کس ہجوم حسرت میں ہم نے راستہ پایا

قدر اس کی پہچانیں آپ یا نہ پہچانیں
اپنے دل کو ہم نے تو حسب مدعا پایا

بے خودی کی حسرت کیا بے سبب میں کرتا تھا
آ کے ہوش میں سمجھا بے خودی میں کیا پایا

شیخ یہ تہی ساغر ہاں اسی کو ساقی نے
میرے کام کا پایا یا تیرے کام کا پایا

حسرتیں سراسیمہ ہر طرف نظر آئیں
کاروان دل میں نے پھر لٹا ہوا پایا

میری مستیاں سمجھیں تیری شوخیاں جانیں
تو نے کیا لیا مجھ سے میں نے تجھ سے کیا پایا

سب یہ رنگ آمیزی ہے فقط تخیل کی
کیا بتاؤں کیا کھویا کیا جتاؤں کیا پایا

پاس بیٹھ کر میرے دیکھتے نہیں مجھ کو
ان کی شرم کو میں نے صبر آزما پایا

سعی پیہم اے منظورؔ اس قدر نشاط افزا
ناامید کس سے تھے کس سے یہ صلہ پایا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse