اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

اک بات پر بگڑے گئے نہ جو عمر بھر ملے
اس سے طریق صلح کے کیا صلح گر ملے

باہم سلوک تھا پہ ترے دور حسن میں
یہ رسم اٹھ گئی کہ بشر سے بشر ملے

دل محو چشم یار تھا بیمار ہو گیا
کچھ ان پرستشوں کا بھی آخر ثمر ملے

اے نالہ تو نے ساتھ دیا آہ کا تو کیا
امید کیا اثر کی جو دو بے اثر ملے

صدمہ جگر پہ پہنچے تو ہو دل میں کیوں نہ درد
کیا فرق کچھ جدا نہیں ہیں دل جگر ملے

ہم کو ہمارے طالع بد نے ڈبو دیا
اچھے تھے گر نصیب تو کیوں چشم تر ملے

دھوؤں صد آب تیغ سے اے پنبہ جو کبھو
دامن سے تیرے دامن داغ جگر ملے

امید بو میں اس کی ملے یوں صبا سے ہم
جس طرح بے خبر سے کوئی بے خبر ملے

جو کچھ نہ دیکھنا تھا سو وہ دیکھنا پڑا
اس بے وفا سے پہلے تھے کیا دیکھ کر ملے

دیکھے ہنر جو اپنے ہی وہ جانے اس کا کام
ہم کو تو عیب دیکھ کے اپنے ہنر ملے

مہر جہاں فروز دکھا دوں جبیں کو میں
گر سنگ آستانۂ خیر البشر ملے

ملنے سے اس کی گھٹتی ہے کیا تیری شان حسن
آزردہؔ خستہ جاں بھی ملے تو اگر ملے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse