اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا
by امیر اللہ تسلیم

اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا
اچھا کوئی پھر کیوں ہو مسیحا مرے دل کا

کیوں بھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشا ہے تڑپنا مرے دل کا

بازار محبت میں کمی کرتی ہے تقدیر
بن بن کے بگڑ جاتا ہے سودا مرے دل کا

گر وہ نہ ہوئے فیصلۂ حشر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام خدایا مرے دل کا

کیا کوہ کن و قیس کو دیتے دم تقسیم
حصہ تھا غم حوصلہ فرسا مرے دل کا

گو میں نہ رہوں محفل جاناں میں مگر روز
تسلیمؔ یوں ہی ذکر رہے گا مرے دل کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.