اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
by نظم طباطبائی

اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
شرابی جمع ہیں مے خانہ میں ٹوپی اچھلتی ہے

بہار مے کشی آئی چمن کی رت بدلتی ہے
گھٹا مستانہ اٹھتی ہے ہوا مستانہ چلتی ہے

زخود رفتہ طبیعت کب سنبھالے سے سنبھلتی ہے
نہ بن آتی ہے ناصح سے نہ کچھ واعظ کی چلتی ہے

یہ کس کی ہے تمنا چٹکیاں لیتی ہے جو دل میں
یہ کس کی آرزو ہے جو کلیجہ کو مسلتی ہے

وہ دیوانہ ہے جو اس فصل میں فصدیں نہ کھلوائے
رگ ہر شاخ گل سے خون کی ندی ابلتی ہے

سحر ہوتے ہی دم نکلا غش آتے ہی اجل آئی
کہاں ہوں میں نسیم صبح پنکھا کس کو جھلتی ہے

تمتع ایک کا ہے ایک کے نقصاں سے عالم میں
کہ سایہ پھیلتا جاتا ہے جوں جوں دھوپ ڈھلتی ہے

بنا رکھی ہے غم پر زیست کی یہ ہو گیا ثابت
نہ لپکا آہ کا چھوٹے گا جب تک سانس چلتی ہے

قرار اک دم نہیں آتا ہے خون بے گنہ پی کر
کہ اب تو خود بہ خود تلوار رہ رہ کر اگلتی ہے

جہنم کی نہ آنچ آئے گی مے خواروں پہ او واعظ
شراب آلودہ ہو جو شے وہ کب آتش میں جلتی ہے

نہ دکھلانا الٰہی ایک آفت ہے شب فرقت
نہ جو کاٹے سے کٹتی ہے نہ جو ٹالے سے ٹلتی ہے

یہ اچھا شغل وحشت میں نکالا تو نے اے حیدرؔ
گریباں میں الجھنے سے طبیعت تو بہلتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse