اچھلتا کودتا ہے خوش دل دیوانہ ہوتا ہے
Appearance
اچھلتا کودتا ہے خوش دل دیوانہ ہوتا ہے
نظر کے سامنے جب جلوۂ جانانہ ہوتا ہے
مری خصلت سے نا خوش اپنا اور بیگانہ ہوتا ہے
جہاں میں بیٹھ جاتا ہوں وہیں ویرانہ ہوتا ہے
میرے کندھوں پہ رکھ دے ساقیا دوکان کو اپنی
جہاں دو بوتلیں رکھ دیں وہی مے خانہ ہوتا ہے
شمع کچھ پھوکنے کے واسطے گھر پر نہیں جاتی
فدا الو کا پٹھا آ کے خود پروانہ ہوتا ہے
ابے ساقی نہیں ہے جام تو لا اس طرف بوتل
ذرا سی ٹنٹنی کو توڑ دوں پیمانہ ہوتا ہے
جناب شیخ کا اس وقت میں کھنچے کوئی فوٹو
کہ جب بوتل بغل میں ہاتھ میں پیمانہ ہوتا ہے
نقب کر کے چرا لیتے ہیں ہم پیپے شرابوں کے
کہ جس دم بند آدھی رات کو مے خانہ ہوتا ہے
شب وعدہ کی باتیں تم جو کہہ دیتے ہو گھر جا کر
انہیں باتوں کا بڑھتے بڑھتے ایک افسانہ ہوتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |