اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا
مدت سے کش مکش میں دل ناصبور تھا

دنیا کا ہوشیار بڑا ذی شعور تھا
جب تک مرے کہے میں دل ناصبور تھا

میرا قصور میری نظر کا قصور تھا
وہ جس قدر قریب تھا اتنا ہی دور تھا

اچھا ہوا جو دل کی تڑپ اور بڑھ گئی
جانا بھی ان کی بزم میں مجھ کو ضرور تھا

اس بے نشاں کا آج نشاں ڈھونڈتے ہیں آپ
سنیے وہی جو نازش اہل قبور تھا

وہ دور میری عمر کا تھا یادگار دور
جس میں کہ تیرے حسن پہ مجھ کو غرور تھا

لے آیا کون گور غریباں میں کھینچ کر
کوسوں ابھی میں منزل مقصد سے دور تھا

واعظ نے ذکر وعدۂ فردوس کیوں کیا
اس رند سے جو نشۂ وحدت سے چور تھا

اب آ کے میری لاش سے فرما رہے ہیں وہ
عالمؔ یہ تیری عقل و فراست سے دور تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse