اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
by زین العابدین خاں عارف

اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
دشوار تھا یہ کام پر آساں نکل گیا

بک بک سے ناصحوں کی ہوا یہ تو فائدہ
میں گھر سے چاک کر کے گریباں نکل گیا

پھر دیکھنا کہ خضر پھرے گا بہا بہا
گر سوئے دشت میں کبھی گریاں نکل گیا

خوبی صفائے دل کی ہماری یہ جانیے
سینے کے پار صاف جو پیکاں نکل گیا

ہنگامے کیسے رہتے ہیں اپنے سبب سے واں
ہم سے ہی نام کوچۂ جاناں نکل گیا

فرقت میں کار وصل لیا واہ واہ سے
ہر آہ دل کے ساتھ اک ارماں نکل گیا

بہتر ہوا کہ آئے وہ محفل میں بے نقاب
عارفؔ غرور ماہ جبیناں نکل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse