اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا
by میاں داد خاں سیاح

اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا
گاہ عابد ہوں خدا کا گہہ پجاری رام کا

لوٹتے ہیں جس کو سن سن کر ہزاروں مرغ دل
ہو رہا ہے ذکر کس کے گیسوؤں کے دام کا

چشم مست یار کا ہم چشم لو پیدا ہوا
دیکھنا اب پوست کھینچا جائے گا بادام کا

سیر کرتا ہے وہ عالم کی مرا پیک نگاہ
لاکھ ہے بے دست و پا لیکن ہے پھر سو کام کا

سر جدا تن سے کیا اک ہاتھ میں جلاد نے
نقد جاں دیجے کیا اس نے یہ کام انعام کا

ہیں شہ ملک جنوں صحرا ہے اپنا تخت گاہ
تن پہ ہر داغ جنوں سکہ ہے اپنے نام کا

جلد نام اپنا بتا دے جیسے بندہ ہوں ترا
واسطہ دیتا ہوں میں اے بت خدا کے نام کا

بت پرستی کی بہت سیاحؔ اب کر یاد حق
شغل مولا میں رہے بندہ وہی ہے کام کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse