اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا
by مرزا محمد رفیع سودا

اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا
اس دل کو کیا کہوں کہ دوانے نے کیا کیا

یاں تک ستانا مج کو کہ رو رو کہے تو ہائے
یارو نہ تم سنا کہ فلانے نے کیا کیا

پردہ تو راز عشق سے اے یار اٹھ چکا
بے سود ہم سے منہ کے چھپانے نے کیا کیا

آنکھوں کی رہبری نے کہوں کیا کہ دل کے ساتھ
کوچے کی اس کے راہ بتانے نے کیا کیا

کام آئی کوہ کن کی مشقت نہ عشق میں
پتھر سے جوئے شیر کے لانے نے کیا کیا

ٹک در تک اپنے آ مرے ناصح کا حال دیکھ
میں تو دوانا تھا پہ سیانے نے کیا کیا

چاہوں میں کس طرح یہ زمانے کی دوستی
اوروں سے دوست ہو کے زمانے نے کیا کیا

کہتا تھا میں گلے کا ترے ہو پڑوں گا ہار
دیکھا نہ گل کو سر پہ چڑھانے نے کیا کیا

سوداؔ ہے بے طرح کا نشہ جام عشق میں
دیکھا کہ اس کو منہ کے لگانے نے کیا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse