اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
by اکبر الہ آبادی

اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے
ان کو ہم قصۂ غم اپنا سنا ہی نہ سکے

ذہن میرا وہ قیامت کہ دو عالم پہ محیط
آپ ایسے کہ مرے ذہن میں آ ہی نہ سکے

دیکھ لیتے جو انہیں تو مجھے رکھتے معذور
شیخ صاحب مگر اس بزم میں جا ہی نہ سکے

عقل مہنگی ہے بہت عشق خلاف تہذیب
دل کو اس عہد میں ہم کام میں لا ہی نہ سکے

ہم تو خود چاہتے تھے چین سے بیٹھیں کوئی دم
آپ کی یاد مگر دل سے بھلا ہی نہ سکے

عشق کامل ہے اسی کا کہ پتنگوں کی طرح
تاب نظارۂ معشوق کی لا ہی نہ سکے

دام ہستی کی بھی ترکیب عجب رکھی ہے
جو پھنسے اس میں وہ پھر جان بچا ہی نہ سکے

مظہر جلوۂ جاناں ہے ہر اک شے اکبرؔ
بے ادب آنکھ کسی سمت اٹھا ہی نہ سکے

ایسی منطق سے تو دیوانگی بہتر اکبرؔ
کہ جو خالق کی طرف دل کو جھکا ہی نہ سکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse