اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
by سخی لکھنوی

اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
سچ ہے شاعر بھی ہوا باندھتے ہیں

پھر سر دست مرا خوں ہوگا
پھر وہ ہاتھوں میں حنا باندھتے ہیں

گٹھری پھولوں کی وہ ہو جاتی ہے
جن میں وہ اپنی قبا باندھتے ہیں

اجی دیکھیں دل عاشق تو نہیں
آپ آنچل میں یہ کیا باندھتے ہیں

اے سخیؔ آج تو کچھ خیر نہیں
وہ کمر ہو کے خفا باندھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse