اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
by جلیل مانکپوری

اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
یہ قفس یہ آشیانا اور ہے

موت کا آنا بھی دیکھا بارہا
پر کسی پر دل کا آنا اور ہے

ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی
اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے

درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی
بندہ پرور یہ فسانا اور ہے

رات بھر میں شمع محفل جل بجھی
عاشقوں کا دل جلانا اور ہے

ہم کہاں پھر باغباں گلشن کہاں
ایک دو دن آب و دانا اور ہے

بھولی بھولی ان کی باتیں ہو چکیں
اب خدا رکھے زمانا اور ہے

چھوڑ دوں کیوں کر در پیر مغاں
کوئی ایسا آستانا اور ہے

یار صادق ڈھونڈتے ہو تم جلیلؔ
مشفق من یہ زمانا اور ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse