اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں
by امداد امام اثر

اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں
خاک میں آپ ملاتے ہیں ہمیں

ہے جو منظور جفا در پردہ
منہ وہ غیروں میں دکھاتے ہیں ہمیں

غیر کو پاس بٹھا رکھتے ہیں
جب کبھی آپ بلاتے ہیں ہمیں

گرمیاں غیر کو دکھلا دکھلا
بزم میں آپ جلاتے ہیں ہمیں

شب فرقت میں فلک کے تارے
داغ دل یاد دلاتے ہیں ہمیں

ان کے انداز سخن ہیں معلوم
غیر کو کہہ کے سناتے ہیں ہمیں

پھر کسی گل پہ ہوا دل مائل
داغ تازہ نظر آتے ہیں ہمیں

چھوڑ دیں آپ کی ہم راہی ہم
واہ کیا راہ بتاتے ہیں ہمیں

تو ہمیں راہ بتائے جس سے
غیر وہ راہ بتاتے ہیں ہمیں

عطر گل سے نہیں جب دل بھرتا
اپنا رومال سونگھاتے ہیں ہمیں

شب کو افسانۂ دل کہہ کے اثرؔ
آپ روتے ہیں رلاتے ہیں ہمیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse