Jump to content

اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی

From Wikisource
اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
by یاس یگانہ چنگیزی
318432اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گییاس یگانہ چنگیزی

اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
موج دریا آب ساحل آشنا ہو جائے گی

تہ کا اندیشہ رہے گا پھر نہ ساحل کی ہوس
دل سے جب قطع امید بے وفا ہو جائے گی

شب کی شب بزم طرب ہے پردہ دار انقلاب
صبح تک آئینۂ عبرت نما ہو جائے گی

جان ایماں ہے ابھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی
کیفیت میں ڈوب کر کیا جانے کیا ہو جائے گی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.