اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
by جوشش عظیم آبادی

اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
کہ سدا نیستی ہی ہنستی ہے

نام سنتے ہو جس کا ویرانہ
وہی سودائیوں کی بستی ہے

شمع سے ہاتھ کھینچ اے گل گیر
اتنی بھی کیا دراز دستی ہے

چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے
بت پرستی بھی حق پرستی ہے

اپنے ابر مژہ سے اے ؔجوشش
جائے آب آگ ہی برستی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse