اپنی نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنی نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر
by داغ دہلوی

اپنی نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر
دل خوش نہ ہو تو کس کا تماشہ کہاں کی سیر

اب تک تو دیکھتے رہے جوبن بہار کا
آئندہ ہم کریں گے تمہاری خزاں کی سیر

دنیا کے دیکھنے کے لیے آنکھ چاہیے
جنت کی سیر سے ہے سوا اس مکاں کی سیر

کچھ جھومتے ہیں نشے میں کچھ ہیں گرے پڑے
کچھ اور ہی ہے محفل پیر مغاں کی سیر

کیوں دیکھنے لگے مری چشم پر آب کو
دریا پہ آپ کیجیے آب رواں کی سیر

کیوں آدمی کو عالم بالا کی ہو ہوس
بڑھ کر نہیں زمین سے کچھ آسماں کی سیر

دلی میں پھول والوں کی ہے ایک سیر داغؔ
بلدے میں ہم نے دیکھ لی سارے جہاں کی سیر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse