اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں
by تعشق لکھنوی

اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں
کیفیت پر گل رخسار چلے آتے ہیں

پڑ گئی کیا نگہ مست ترے ساقی کی
لڑکھڑاتے ہوئے مے خوار چلے آتے ہیں

یاد کیں نشہ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کس کی
غش تجھے اے دل بیمار چلے آتے ہیں

راہ میں صاحب اکسیر کھڑے ہیں مشتاق
خاکساران در یار چلے آتے ہیں

باغ میں پھول ہنسے دیتے ہیں بے دردی سے
نالۂ مرغ گرفتار چلے آتے ہیں

دیکھ کر ابروئے خم دار پھرے یوں عاشق
غل ہے کھائے ہوئے تلوار چلے آتے ہیں

جس طرح نرغے میں چلتے ہیں غزال صحرا
یوں تری چشم کے بیمار چلے آتے ہیں

ہوں وہ بے خود کہ یہ ہے نالۂ سوزاں پہ گماں
شعلۂ آتش رخسار چلے آتے ہیں

چاہئے شور قیامت پئے تعظیم اٹھے
آپ کے عاشق رفتار چلے آتے ہیں

شور سنتے ہیں جو ہم چاک گریبانوں کا
بند کھولے سر بازار چلے آتے ہیں

ہر طرف حشر میں جھنکار ہے زنجیروں کی
ان کی زلفوں کے گرفتار چلے آتے ہیں

چل گئی تیغ نگہ آج تعشقؔ پہ ضرور
لوگ اس کوچہ سے خوں بار چلے آتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.