اپنی تجلیوں سے معمور ہو گئے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنی تجلیوں سے معمور ہو گئے ہم
by عابد علی عابد

آئی سحر قریب تو میں نے پڑھی غزل
جلنے لگے ستاروں کے بجھتے ہوئے کنول

بیتاب ہے جنوں کہ غزل خوانیاں کروں
خاموش ہے خرد کہ نہیں بات کا محل

راہوں میں جوئے خوں ہے رواں مثل موج مے
ساقی یقیں نہ ہو تو ذرا میرے ساتھ چل

ہم رند خاک و خوں میں اٹے ہاتھ بھی کٹے
نکلے نہ اے بہار ترے گیسوؤں کے بل

کچھ بجلیوں کا شور ہے کچھ آندھیوں کا زور
دل ہے مقام پر تو ذرا بام پر نکل

اب ترک دوستی ہی تقاضا ہے وقت کا
اے یار چارہ ساز مری آگ میں نہ جل

اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے
جینے کا ہے مقام کہ مرنے کا ہے محل

دل پر ہے ایسا بوجھ کہ کھلتی نہیں زباں
آندھی ہے ایسی تیز کہ جلتا نہیں کنول

کیسے دئے جلائے غم روزگار نے
کچھ اور جگمگاتے غم یار کے محل

فرمان شہریار کی پروا نہیں مجھے
ایمائے عاشقاں ہو تو عابدؔ پڑھے غزل

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse