اپنا ہر عضو چشم بینا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنا ہر عضو چشم بینا ہے
by گویا فقیر محمد

اپنا ہر عضو چشم بینا ہے
اس قدر انتظار تیرا ہے

جو ہے محبوب تیرا شیدا ہے
یوسف آگے تری زلیخا ہے

ایک مہ رو بغل میں سوتا ہے
آسماں پر دماغ اپنا ہے

خاک میں جو ملا دیا مجھ کو
آسماں نے زمیں کو سونپا ہے

کس نے چہرے سے بال سرکائے
شام کو صبح آشکارا ہے

استخواں تک کبھی گزر نہ کیا
میرے حق میں ہما بھی عنقا ہے

تیرے قدموں پہ کیوں نہ قیس گرے
نقش پا رشک روئے لیلیٰ ہے

ان دنوں اے مسیح دم تجھ پر
دم نکلتا ہے دم نکلتا ہے

تولوں اس سیم تن کو نظروں میں
یہ مرا جسم زار کانٹا ہے

حسن خوباں ہلال و بدر کی طرح
کبھی کم ہے کبھی زیادہ ہے

اس بیاباں میں لے گئی وحشت
ماہ نو جس کا ایک کانٹا ہے

دل میں رہتا ہے اس کمر کا خیال
کیا یہ عنقا کا آشیانا ہے

آؤ آنکھوں میں ایک دم ٹھہرو
پتلیوں کا یہاں تماشا ہے

کف پا بھی نہ ہم کو دکھلائے
برہمن ہاتھ دیکھ جاتا ہے

یار نام خدا ہے کشتی میں
ناخدا آج پار بیڑا ہے

تیرا نقش قدم زمیں پہ نہیں
آسماں پر کوئی ستارا ہے

ہم سے تم دشمنی لگے کرنے
دوستی اب نصیب اعدا ہے

کہہ رہے ہیں شب فراق میں ہم
آج کس کو امید فردا ہے

خار چبھ کر جو ٹوٹتا ہے کبھی
آبلہ پھوٹ پھوٹ روتا ہے

آنکھیں نرگس ہیں رخ ہے گل قد سرو
تو تو اے گل چمن سراپا ہے

کام پوشاک سے نہیں ہم کو
عیب پوشی ہمارا شیوہ ہے

دے سلیماں کی اس پری کو قسم
اس طرح شیشے میں اتارا ہے

زلف نے نقد دل کئے ہیں جمع
اب تو یہ سانپ کوڑیالا ہے

پہنچے ہیں گور کے کنارے ہم
ہم سے اب تک تمہیں کنارا ہے

جرم گویاؔ کے بخشوا دینا
یا محمد فقیر تیرا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse