اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو
Appearance
اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو
ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہم تو
یار آیا ہے دیکھ لوں اس کو
اے اجل دم لے تو کوئی دم تو
مونس تازہ ہیں یہ درد و الم
مدتوں کا رفیق ہے غم تو
اپنا عاشق نہ جان تو مجھ کو
اس کو جانے ہے ایک عالم تو
بے حلاوت نہیں خط لب یار
فی الحقیقت شکر ہے یہ سم تو
دل بھی بہہ جائے گا ترے ہم راہ
کاروان سرشک ٹک تھم تو
کیوں رکھوں داغ دل پر اے ؔجوشش
داغ کو بہہ کرے ہے مرہم تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |