اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
by قائم چاندپوری

اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اک حباب کا

کیوں چھوڑتے ہو درد تہ جام مے کشو
ذرہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا

ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جام مے
رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا

ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ
اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا

اس دشت پر سراب میں بہکے بہت پہ حیف
دیکھا تو دو قدم پہ ٹھکانا تھا آب کا

زاہد مریض عشق پہ ہو شرب مے حرام
بارے یہ مسئلہ ہے تری کس کتاب کا

جوں سرمہ کیوں نہ چشم میں قائمؔ کی ہو جگہ
آخر وہ خاک پا ہے شہ بو تراب کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse