اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے
by بیخود دہلوی

اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے
دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اٹھے

دم بھر مرے پہلو میں انہیں چین کہاں ہے
بیٹھے کہ بہانے سے کسی کام کے اٹھے

اس بزم سے اٹھ کر تو قدم ہی نہیں اٹھتا
گھر صبح کو پہنچے ہیں کہیں شام کے اٹھے

ہے رشک کہ یہ بھی کہیں شیدا نہ ہوں اس کے
تربت سے بہت لوگ مرے نام کے اٹھے

افسانۂ حسن اس کا ہے ہر ایک زبان پر
پردے نہ کبھی جس کے در و بام کے اٹھے

آغاز محبت میں مزے دل نے اڑائے
پوچھے تو کوئی رنج بھی انجام کے اٹھے

دل نذر میں دے آئے ہم اک شوخ کو بیخودؔ
بازار میں جب دام نہ اس جام کے اٹھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse