اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
by جلیل مانکپوری

اٹھا ہے ابر جوش کا عالم لیے ہوئے
بیٹھا ہوں میں بھی دیدۂ پر نم لیے ہوئے

ساقی کی چشم مست کا عالم نہ پوچھیے
اک اک نگاہ ہے کئی عالم لیے ہوئے

شبنم نہیں گلوں پہ یہ قطرے ہیں اشک کے
گزرا ہے کوئی دیدۂ پر نم لیے ہوئے

طے کر رہا ہوں عشق کی دشوار منزلیں
آہ دراز و گریۂ پیہم لیے ہوئے

اٹھ اے نقاب یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پر نم لیے ہوئے

سنتا ہوں ان کی بزم میں چھلکیں گے آج جام
میں بھی چلا ہوں دیدۂ پر نم لیے ہوئے

موتی کی قدر سب کو ہے پھولوں کو دیکھیے
کیا ہنس رہے ہیں قطرۂ شبنم لیے ہوئے

جوش جنوں میں لطف تصور نہ پوچھیے
پھرتے ہیں ساتھ ساتھ انہیں ہم لیے ہوئے

دل کی لگی نہ ان سے بجھی آج تک جلیلؔ
دریا ہیں گرچہ دیدۂ پر نم لیے ہوئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse