اٹھا کر ناز سے برقع دکھا کر روئے زیبا کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اٹھا کر ناز سے برقع دکھا کر روئے زیبا کو
by جمیلہ خدا بخش

اٹھا کر ناز سے برقع دکھا کر روئے زیبا کو
تماشا کر دیا دلبر نے مجھ محو تماشا کو

مناسب تھی جو جا بس اس میں رکھے تحفۂ دلبر
نگہ میں یاس کو حسرت کو دل میں سر میں سودا کو

دکھاتی ہے مرے اشکوں کی طغیانی مجھے کیا کچھ
حباب دل کبھی دیکھا کبھی امواج دریا کو

خیال روئے زیبا میں تو دامان سحر دیکھا
شب فرقت تصور کر لیا زلف چلیپا کو

مریض ہجر تیرا میہماں ہے اب کوئی دم کا
دکھائے وقت آخر نبض اپنی کیا مسیحا کو

دل بیمار میں گھر کر لیا ہے درد نے اپنا
الٰہی میں رکھوں کس جا ان ارمان و تمنا کو

تمہیں تو اے صنم منظور اپنی پردہ پوشی تھی
دکھائی طور سینا پر تجلی کس نے موسیٰ کو

خجل کیسا کیا ہے دیدہ و دل نے فدائی کے
سبو کو جام کو مینا کو اور ساغر کو صہبا کو

چراغ عشق روشن کر دیا فرہاد و مجنوں نے
کیا آباد اس نے کوہ کو اور اس نے صحرا کو

رہا ویران بعد از مرگ حافظ ایک مدت تک
کیا آباد جا کر ہم نے گل گشت مصلےٰ کو

مرے پہلو کو موسیٰ دیکھ کر حیرت سے کہتے ہیں
چھپایا کس طرح دل میں جمیلہؔ اس تجلیٰ کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse