اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا
by عزیز حیدرآبادی

اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا
امید وصل میں جھیلیں مصیبتیں کیا کیا

وہی ہے جام وہی مے وہی سبو لیکن
بدل گئی ہیں زمانے کی نیتیں کیا کیا

دبی زبان سے کرتے ہیں غیر در پردہ
تمہارے منہ پہ تمہاری شکایتیں کیا کیا

ستم میں لطف، جفا میں ادا نگاہ میں ناز
عتاب میں بھی ہیں پنہاں عنایتیں کیا کیا

کروں میں ان کی شکایت عزیزؔ جھوٹ غلط
گڑھی ہیں دل سے رقیبوں نے تہمتیں کیا کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse