Jump to content

اوپر نیچے اور درمیان (افسانہ)

From Wikisource
اوپر نیچے اور درمیان (1954)
by سعادت حسن منٹو
319977اوپر نیچے اور درمیان1954سعادت حسن منٹو

میاں صاحب: بہت دیرکے بعد آج مل بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے۔

بیگم صاحبہ: جی ہاں!

میاں صاحب: مصروفیتیں۔۔۔ بہت پیچھے ہٹتا ہوں مگر نااہل لوگوں کا خیال کرکے قوم کی پیش کی ہوئی ذمہ داریاں سنبھالنی ہی پڑتی ہیں۔

بیگم صاحبہ: اصل میں آپ ایسے معاملوں میں بہت نرم دل واقع ہوئے ہیں، بالکل میری طرح۔

میاں صاحب: ہاں! مجھے آپ کی سوشل ایکٹی وٹیزکا علم ہوتا رہتاہے۔ فرصت ملے تو کبھی اپنی وہ تقریریں بھجوا دیجئے گا جو پچھلے دنوں آپ نے مختلف موقعوں پر کی ہیں۔۔۔ میں فرصت کے اوقات میں ان کا مطالعہ کرنا چاہتاہوں۔

بیگم صاحبہ: بہت بہتر۔

میاں صاحب: ہاں بیگم! وہ میں نے آپ سے اس بات کا ذکر کیا تھا!

بیگم صاحبہ: کس بات کا؟

میاں صاحب: میرا خیال ہے، ذکرنہیں کیا۔۔۔ کل اتفاق سے میں منجھلے صاحبزادے کے کمرے میں جا نکلا، وہ لیڈی چٹرلیز لور پڑھ رہاتھا۔

بیگم صاحبہ: وہ رسوائے زمانہ کتاب!

میاں صاحب: ہاں بیگم

بیگم صاحبہ: آپ نے کیا کیا؟

میاں صاحب: میں نے اس سے کتاب چھین کر غائب کردی۔

بیگم صاحبہ: بہت اچھا کیاآپ نے۔

میاں صاحب: اب میں سوچ رہاہوں کہ ڈاکٹر سے مشورہ کروں اور اس کی روزانہ غذا میں تبدیلی کرادوں۔

بیگم صاحبہ: بڑا صحیح قدم اٹھائیں گے آپ۔

میاں صاحب: مزاج کیسا ہے آپ کا؟

بیگم صاحبہ: ٹھیک ہے۔

میاں صاحب: میرا خیال تھا کہ آج آپ سے۔۔۔ درخواست کروں۔

بیگم صاحبہ: اوہ! آپ بہت بگڑتے جا رہے ہیں۔

میاں صاحب: یہ سب آپ کی کرشمہ سازیاں ہیں۔

بیگم صاحبہ: لیکن آپ کی صحت؟

میاں صاحب: صحت؟ اچھی ہے لیکن ڈاکٹر سے مشورہ کیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔۔۔ اورآپ کی طرف سے بھی مجھے پورا اطمینان ہونا چاہیے۔

بیگم صاحبہ: میں آج ہی مس سلڈھانا سے پوچھ لوں گی۔

میاں صاحب: اور میں ڈاکٹر جلال سے

بیگم صاحبہ: قاعدے کے مطابق ایسا ہی ہونا چاہیے۔

میاں صاحب: اگر ڈاکٹر جلال نے اجازت دے دی؟

بیگم صاحبہ: اگرمس سلڈھانا نے اجازت دے دی۔۔۔ مفلر اچھی طرح لپیٹ لیجئے۔ باہر سردی ہے۔

میاں صاحب: شکریہ

***

ڈاکٹر جلال: تم نے اجازت دے دی؟

مس سلڈھانا: جی ہاں

ڈاکٹر جلال: میں نے بھی اجازت دے دی۔۔۔ حالانکہ شرارت کے طور پر۔۔۔

مس سلڈھانا: حالانکہ شرارت کے طور پر میں بھی چاہتی تھی کہ اجازت نہ دوں۔

ڈاکٹر جلال: لیکن مجھے ترس آ گیا۔

مس سلڈھانا: مجھےبھی۔

ڈاکٹر جلال: پورے ایک برس کے بعد وہ۔۔۔

مس سلڈھانا: ہاں پورے ایک برس کے بعد۔

ڈاکٹر جلال: میری انگلیوں کے نیچے اس کی نبض تیز ہوگئی، جب میں نے اس کو اجازت دی۔

مس سلڈھانا: اس کی بھی یہی کیفیت تھی۔

ڈاکٹر جلال: اس نے مجھ سے ڈرتے ہوئے کہا، ڈاکٹر! ایسا معلوم ہوتا ہے، میرا دل کمزور ہوگیا ہے۔۔۔ آپ کا رڈیوگرام لیجئے۔۔۔

مس سلڈھانا: اس نے بھی مجھ سے یہی کہا۔

ڈاکٹر جلال: میں نے اس کے ٹیکہ لگا دیا۔

مس سلڈھانا: میں نے بھی۔۔۔ صرف سادہ پانی کا۔

ڈاکٹر جلال: سادہ پانی بہترین چیز ہے۔

مس سلڈھانا: جلال! اگر تم اس بیگم کے شوہر ہوتے؟

ڈاکٹر جلال: اگر تم اس میاں کی بیوی ہوتیں؟

مس سلڈھانا: میرا کیریکٹر خراب ہوگیا ہوتا!

ڈاکٹر جلال: میراجنازہ اٹھ گیا ہوتا!

مس سلڈھانا: یہ بھی تمہارے کیریکٹر کی خرابی کہلاتی۔

ڈاکٹر جلال: ہم جب بھی سوسائٹی کے ان الوؤں کو دیکھنے آتے ہیں، ہمارا کیریکٹر خراب ہو جاتا ہے۔

مس سلڈھانا: آج بھی ہوگا؟

ڈاکٹر جلال: بہت زیادہ۔

مس سلڈھانا: مگر مصیبت یہ ہے کہ ان کا لمبے لمبے وقفوں کے بعد ہوتا ہے۔

***

بیگم صاحبہ: لیڈی چٹرلیز لور، یہ آپ نے تکیے کے نیچے کیوں رکھی ہوئی ہے؟

میاں صاحب: میں دیکھنا چاہتاتھا کہ یہ کتاب کتنی بے ہودہ اور واہیات ہے۔

بیگم صاحبہ: میں بھی آپ کے ساتھ دیکھوں گی۔

میاں صاحب: میں جستہ جستہ دیکھوں گا، پڑھتا جاؤں گا۔ آپ بھی سنتی جایئے۔

بیگم صاحبہ: بہت اچھا رہے گا۔

میاں صاحب: میں نے منجھلے صاحبزادے کی روزانہ غذا میں ڈاکٹر کےمشورے سے تبدیلیاں کرادی ہیں۔

بیگم صاحبہ: مجھے یقین تھا کہ آپ نے اس معاملے میں غفلت نہیں برتی ہوگی۔

میاں صاحب: میں نے اپنی زندگی میں کبھی آج کا کام کل پر نہیں چھوڑا۔

بیگم صاحبہ: میں جانتی ہوں۔۔۔ اور خاص کر آج کا کام توآپ کبھی۔۔۔

میاں صاحب: آپ کا مزاج کتنا شگفتہ ہے۔۔۔

بیگم صاحبہ: یہ سب آپ کی کرشمہ سازیاں ہیں۔

میاں صاحب: میں بہت محظوظ ہوا ہوں۔۔۔ اگر آپ کی اجازت ہوتو۔۔۔

بیگم صاحبہ: ٹھہریئے! کیا آپ نے دانت صاف کیے؟

میاں صاحب: جی ہاں! میں دانت صاف کر کے اور ڈیٹول کے غرارے کر کے آیا تھا۔

بیگم صاحبہ: میں بھی

میاں صاحب: اصل میں ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے بنائے گئے تھے

بیگم صاحبہ: اس میں کیا شک ہے

میاں صاحب: میں جستہ جستہ یہ بے ہودہ کتاب پڑھنا شروع کروں۔

بیگم صاحبہ: ٹھہریئے! ذرا میری نبض دیکھئے۔

میاں صاحب: کچھ تیزچل رہی ہے۔۔۔ میر ی دیکھئے۔

بیگم صاحبہ: آپ کی بھی تیز چل رہی ہے

میاں صاحب: وجہ؟

بیگم صاحبہ: دل کی کمزوری!

میاں صاحب: یہی وجہ ہو سکتی ہے۔۔۔ لیکن ڈاکٹر جلال نے کہا تھا کوئی خاص بات نہیں۔

بیگم صاحبہ: مس سلڈھانا نے بھی یہی کہا تھا۔

میاں صاحب: اچھی طرح امتحان کر کے اس نے اجازت دی تھی؟

بیگم صاحبہ: بہت اچھی طرح امتحان کر کے اجازت دی تھی۔

میاں صاحب: تو میرا خیال ہے کوئی حرج نہیں

بیگم صاحبہ: آپ بہتر سمجھتے ہیں۔۔۔ ایسا نہ ہو، آپ کی صحت۔۔۔

میاں صاحب: اور آپ کی صحت بھی۔۔۔

بیگم صاحبہ: اچھی طرح سوچ سمجھ کر ہی قدم اُٹھانا چاہیے۔

میاں صاحب: مس سلڈھانا نے اس کا تو بندوبست کردیا ہے نا؟

بیگم صاحبہ: کس کا۔۔۔؟ ہاں، ہاں، اس کا تو بندوبست کر دیا ہے اس نے۔

میاں صاحب: یعنی اس طرف سے تو پورا اطمینان ہے۔

بیگم صاحبہ: جی ہاں!

میاں صاحب: ذرا اب دیکھئے نبض؟

بیگم صاحبہ: اب تو۔۔۔ ٹھیک چل رہی ہے۔۔۔ میری؟

میاں صاحب: آپ کی بھی نور مل ہے۔

بیگم صاحبہ: اس بے ہودہ کتاب کا کوئی پیرا تو پڑھیے۔

میاں صاحب: بہتر۔۔۔ نبض پھر تیز ہوگئی۔

بیگم صاحبہ: میری بھی۔

میاں صاحب: نوکروں سے مطلوبہ سامان رکھوا دیا آپ نے کمرے میں؟

بیگم صاحبہ: جی ہاں! سب چیزیں موجود ہیں۔

میاں صاحب: اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میرا ٹمپریچر لے لیجئے۔

بیگم صاحبہ: کیا آپ تکلیف نہیں کر سکتے۔۔۔ اسٹاپ واچ موجود ہے۔ نبض کی رفتار بھی دیکھ لیجئے۔

میاں صاحب: ہاں! یہ بھی نوٹ ہونی چاہیے۔

بیگم صاحبہ: سملنگ سالٹ کہاں ہے؟

میاں صاحب: دوسری چیزوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔

بیگم صاحبہ: جی ہاں! پڑا ہے تپائی پر۔

میاں صاحب: کمرے کا ٹمپریچر میرا خیال ہے تھوڑا سا بڑھا دینا چاہیے۔

بیگم صاحبہ: میرا بھی یہی خیال ہے۔

میاں صاحب: نقاہت زیادہ ہوگئی تو مجھے دوا دینا نہ بھولیے گا۔

بیگم صاحبہ: میں کوشش کروں گی اگر۔۔۔

میاں صاحب: ہاں ہاں۔۔۔! بصورت دیگر آپ تکلیف نہ اُٹھایئے گا۔

بیگم صاحبہ: آپ یہ صفحہ۔۔۔ یہ پورا صفحہ پڑھیے۔۔۔

میاں صاحب: سنیے!

بیگم صاحبہ: یہ آپ کو چھینک کیوں آئی؟

میاں صاحب: معلوم نہیں۔

بیگم صاحبہ: حیرت ہے۔

میاں صاحب: مجھے خود حیرت ہے۔

بیگم صاحبہ: اوہ۔۔۔ میں نے کمرے کا ٹمپریچر بڑھا نے کے بجائے گھٹا دیا تھا۔۔۔ معافی چاہتی ہوں۔

میاں صاحب: یہ اچھا ہوا کہ چھینک آگئی اور بروقت پتہ چل گیا۔

بیگم صاحبہ: مجھے بہت افسوس ہے۔

میاں صاحب: کوئی بات نہیں۔ بارہ قطرے برانڈی اس کی تلافی کردیں گے۔

بیگم صاحبہ: ٹھہریئے۔۔۔! مجھے ڈالنے دیں۔ آپ سے گننے میں غلطی ہو جایا کرتی ہے۔

میاں صاحب: یہ تو درست ہے۔ آپ ڈال دیجئے۔

بیگم صاحبہ: آہستہ آہستہ پیچھے

میاں صاحب: اس سے زیادہ آہستہ اور کیا ہوگا؟

بیگم صاحبہ: طبیعت بحال ہوئی؟

میاں صاحب: ہورہی ہے۔

بیگم صاحبہ: آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔

میاں صاحب: ہاں۔۔۔ میں خود اس کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔

***

نوکر: کیا بات ہے، آج بیگم صاحبہ نظر نہیں آئیں؟

نوکرانی: طبیعت ناساز ہے ان کی۔

نوکر: میاں صاحب کی طبیعت بھی ناساز ہے۔

نوکرانی: ہمیں معلوم تھا۔

نوکر: ہاں! لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

نوکرانی: کیا؟

نوکر: یہ قدرت کا تماشا۔۔۔ ہمیں تو آج بستر مرگ پر ہونا چاہیے تھا۔

نوکرانی: کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہو۔ بستر مرگ پرہوں وہ۔۔۔

نوکر: نہ چھیڑو ان کے بستر مرگ کا ذکر۔۔۔ بڑا شاندار ہوگا۔۔۔ خواہ مخواہ میرا جی چاہے گا کہ اٹھا کر اپنی کوٹھری میں لے جاؤں۔

نوکرانی: کہاں چلے؟

نوکر: بڑھئی ڈھونڈنے جارہا ہوں۔۔۔ چار پائی اب بالکل جواب دے چکی ہے۔

نوکرانی: ہاں! اس سے کہنا، مضبوط لکڑی لگائے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.