اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
by آرزو لکھنوی

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی

قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشت عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسب مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے رقص میں ہے پروانہ بھی

دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں بستی کیا ویرانہ ہے
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی

غنچے چپ ہیں گل ہیں ہوا پر کس سے کہیے جی کا حال
خاک نشیں اک سبزہ ہے سو اپنا بھی بیگانہ بھی

حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اڑ کے چلا پروانہ بھی

خون ہی کی شرکت وہ نہ کیوں ہو شرکت چیز ہے جھگڑے کی
اپنوں سے وہ دیکھ رہا ہوں جو نہ کرے بیگانا بھی

دور مسرت آرزوؔ اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھوٹ پڑا پیمانہ بھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse