اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے
by داغ دہلوی

اول تو رہے دور وہ نالوں سے ہمارے
پاس آئے تو گھبرائے سوالوں سے ہمارے

یہ کہتے ہیں بلبل سے وہ گل ہاتھ میں لے کر
تو دیکھ ملا کر اسے گالوں سے ہمارے

کیا برہنہ پا دشت میں لاکھوں بھی نہ ہوں گے
کانٹوں کو مگر چھیڑ ہے چھالوں سے ہمارے

ہر وقت نئی دھن ہے ہمیں تازہ تصور
جاؤ گے کہاں بچ کے خیالوں سے ہمارے

کہتی ہیں وہ آنکھیں صف مژگاں کو بڑھا کر
ہے کون جو روکش ہو رسالوں سے ہمارے

اے داغؔ فلک دشمن ارباب ہنر ہے
ظالم کو خبر ہو نہ کمالوں سے ہمارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse