اولاً اس بے نشاں اور با نشاں کو عشق ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اولاً اس بے نشاں اور با نشاں کو عشق ہے
by نظیر اکبر آبادی

اولاً اس بے نشاں اور با نشاں کو عشق ہے
بعد ازاں سر حلقۂ پیغمبراں کو عشق ہے

لا فتیٰ الا علی ہے شان میں جس کی نزول
دوستاں اس شاہ مرداں سے جواں کو عشق ہے

پھر جو ہے باغ نبوت اور امامت کی بہار
غنچۂ گل سبزۂ عنبر فشاں کو عشق ہے

عرش و کرسی حور و غلماں اور ملائک خاص و عام
عالم بالا کے سب باشندگاں کو عشق ہے

ہیں جو یہ چودہ طبق متحرک و ساکن سدا
بے سخن ان سب زمین و آسماں کو عشق ہے

مختلف ہیں اور ملے رہتے ہیں باہم روز و شب
خاک باد و آتش و آب رواں کو عشق ہے

ہے جہاں میں جن سے روشن عدل کے گھر کا چراغ
دم بدم ان بادشاہان جہاں کو عشق ہے

اور خراساں اصفہان ایران اور توران کو
پھر ہمارے گلشن ہندوستاں کو عشق ہے

ہیں جہاں تک سلسلے فقرا کے از کہہ تا بہ مہ
عارفاں اور کاملاں اور عاشقاں کو عشق ہے

کوہ تھراتے ہیں لرزیں ہیں زمین و آسمان
عاشق مولا کی فریاد و فغاں کو عشق ہے

ہر طرف گل زار ہے سبزان اور آب رواں
اپنی نظروں میں بہار گل فشاں کو عشق ہے

وہ جو ہیں اس گلشن ہستی میں اب محو فنا
ان کے آگے موسم باد خزاں کو عشق ہے

گرد کے مانند پھرتی ہیں پڑی اڑتی خراب
لٹ گئی دست جنوں کی کارواں کو عشق ہے

لوٹتے ہیں مست مے خانے کے در پر جا بجا
جام و صہبا ساقی و پیر مغاں کو عشق ہے

کل ہی نقش ذائقہ سن کر بھی ہم عامل رہے
اے عزیزاں اس حیات رائیگاں کو عشق ہے

خلقت کونین میں کیا جن و کیا انساں نظیرؔ
وحشی و طائر زباں و بے زباں کو عشق ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse