اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے
by ریاض خیرآبادی

اور مے خانہ نشیں چور بنائے نہ گئے
ہم دھرے جاتے ہیں ناحق کہیں آئے نہ گئے

شوخیاں تیری اٹھائیں گی مجھے بزم سے کیا
ان سے تو شرم کے پردے بھی اٹھائے نہ گئے

قید نغمے کی ہوئی قید قفس پر طرہ
ہم سے صیاد کو نالے بھی سنائے نہ گئے

پردہ ڈالا تری رحمت نے مرے عصیاں پر
ان فرشتوں سے مرے عیب چھپائے نہ گئے

کون سا لطف نہ فردوس میں پایا لیکن
پھر بھی دنیا کے مرے دل سے بھلائے نہ گئے

جب چلے سوئے لحد مڑ کے نہ دیکھا گھر کو
ایسے روٹھے کہ کسی سے بھی منائے نہ گئے

یہ سمجھ کر کہ گنہ گار ہیں کس مالک کے
نہ گئے حشر میں ہم آنکھ جھکائے نہ گئے

غیر کے جلنے سے کچھ آنچ نہ آتی تم پر
کیوں الگ بیٹھے ہوئے آگ لگائے نہ گئے

نہ رہا حشر میں نظارہ سے محروم کوئی
قبر سے ایک ہمیں آج اٹھائے نہ گئے

کس نے دیکھا ہمیں کوچے میں حسینوں کے ریاضؔ
مفت بدنام ہوئے ہم کہیں آئے نہ گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse