اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں
by منیرؔ شکوہ آبادی

اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں
اس کا شیدائی ہوں جس کا کوئی شیدائی نہیں

صاف ہیں ہم گو تجھے میل خود آرائی نہیں
دل وہی آئینہ ہے پر تو تماشائی نہیں

قائل وحدت ہوں شرکت کا تمنائی نہیں
تو جو تنہا ہے تو مجھ کو فکر تنہائی نہیں

ناصحو کیوں صبر کرنے کے لئے کرتے ہو تنگ
اس قدر دل تنگ ہے جائے شکیبائی نہیں

ڈھونڈھنے پر میں کمر باندھوں تو پاؤں قصر یار
بے محل ہے لا مکاں کہنا وہ ہرجائی نہیں

سچ ہے حق نا حق نہیں ملتا کسی کو مرتبہ
دار پر منصور کو اوج مسیحائی نہیں

یا کرو اپنا کسی کو یا کسی کے ہو رہو
چار دن کی زندگی میں لطف تنہائی نہیں

زار ہوں طاقت سے مل جانے کو طاقت چاہئے
ناتوانی سے جدائی کی توانائی نہیں

دشت وحشت میں نہیں ملتا ہے سایہ کا پتا
میں ہوں سودائی مرا ہم زاد سودائی نہیں

آتشی شیشہ کی عینک ہو ہماری آنکھ میں
ہم تمہاری گرمیاں دیکھیں یہ بینائی نہیں

مصر کے بازار میں کیا بڑھ گئی یوسف کی قدر
حسن کو بے پردگی میں عیب رسوائی نہیں

بے مے و مے خانہ و ساقی جو آئی مجھ کو موت
حلقۂ ماتم ہے دور چرخ مینائی نہیں

ہو گیا خاموش جو شہر خموشاں کا ہوا
ہے دہان گور موجود اور گویائی نہیں

دونوں نشاؤں سے ہیں باہر مست صہبائے الست
اپنے مے خانہ میں دور چرخ مینائی نہیں

پائیں کیا دیوانۂ مژگاں بت ترسا میں لطف
سوزن عیسیٰ میں نوک خاک صحرائی نہیں

میرے دل کی تجھ کو بے جا ہے شکایت غیر سے
اپنے گھر کا حال کہنا طرز دانائی نہیں

نشہ میں زندہ ہیں ہے عیسیٰ نفس اپنا خمار
جان اعضا میں چلی آتی ہے انگڑائی نہیں

ہو گئے ٹیڑھے اگر ہم نے جگایا نیند سے
آپ در پردہ اکڑتے ہیں یہ انگڑائی نہیں

مے کدہ پر سقف ابر رحمت حق چاہئے
احتیاج سائبان چرخ مینائی نہیں

بے خطر ہیں سستیٔ اندام سے نازک مزاج
جستجوئے بادہ میں شیشوں کی انگڑائی نہیں

سر کو ٹکرا کر مٹایا اپنی قسمت کا لکھا
دیر میں کعبہ میں اب فکر جبیں سائی نہیں

آپ سے یوسف ہزاروں ہم سے عاشق سیکڑوں
حسن کا توڑا نہیں قحط تماشائی نہیں

پیر گردوں سے ذرا انجم اچک کر چھین لیں
ہمتیں عالی ہیں فکر چرخ بالائی نہیں

ہے مرا دشت جنوں سات آسمانوں سے دو چند
ربع مسکوں وادئ وحشت کی چوتھائی نہیں

دختر رز مثل افلاطوں ہے جب تک خم میں ہے
نشہ میں اپنے سے باہر ہوں یہ دانائی نہیں

لکھنؤ کی آرزو میں جان دیتا ہے منیرؔ
سلطنت کا بھی زمانہ میں تمنائی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse